حق سبحانہ تعالی نے دوصورتیں دوزخ کے اندر پیدا کیں۔ ایک صورت شیر کی دوسری بھیٹریۓ کی، یہ دونوں صورتیں قدرت الہی سے دوزخ سچین میں جا کر آپس میں مل گئیں، اس سے عزاز میں پیدا ہوا۔ اس نے وہاں ہزار برس تک خداۓ تعالی کو سجدہ کیا پھر ہر طبقہ مین پر ہزار سال عبادت کرکے زمین نیا پر آیا۔ حق سبحانہ تعالی نے اس کو دو بازو زبر جدسبز کے عنایت کئے، تب وہاں سے اڑ کر آسمان اول پر گیا، وہاں ہزار برس خداۓ تعالی عز وجل کو سجدہ کیا، نام اس کا خاشع ہوا، اور وہاں سے دوسرے آسان پر گیا۔ پھر ہزار سال خداۓ تعالی کوسجدہ کیا، وہاں کے رہنے والوں نے نام اسکا عابد رکھا۔ پھر تیسرے آسان پر جا کر ہزار سال رب العالمین کی عبادت کی، وہاں نام صالح ہوا۔ اور چوتھے آسان پر بھی ہزار سال عبادت کی وہاں اس کو ولی کے نام سے پکارا گیا۔ پھر پانچویں آسان پر ہزار سال سجدہ کیا، نام اس کا عزاز میں رکھا گیا۔ بعد اس کے چھٹے آسان پر جا پہنچا، وہاں بھی ہزار سال عبادت کی۔ پھر ساتویں آسمان پر پہنچا وہاں ہزارسال رب العالمین کوسجدہ کیا۔
حاصل کلام یہ کہ ایک بالشت کے برا ہر جگہ زمین و آسان میں باقی نہ رہی کہ اس نے سر اپنانہ جھکا یا اس کے بعد عرش معنی پر جا کر چھ ہزار برس تک حق تعالی کی پرستش کر کے ایک مقام پر سرجدے سے اٹھا کر جناب باری میں عرض کی کہ خدایا! مجھے لوح محفوظ پر فضل وکرم سے اپنے اٹھالے کہ قدرت تیری دیکھوں اور عبادت تیری زیادو کروں ۔ اسرافیل علیہ السلام کو باری تعالی کا حکم ہوا کہ اسے اٹھالے۔ جب وہ لوح محفوظ پر گیا، نظر اس کی نوشتے پر جاپڑی، اس میں لکھا تھا کہ ایک بندۂ خدا چھ لا کھ برس تک اپنے خالق کی عبادت کرے گا اور ایک سجدہ خدای کا نہ کرے گا تو خدائے تعالی چالا کھ برس کی عبادت اس کی مٹا کر سب مخلوقات میں نام اس کا ابلیس مردود ومرجوم رکھے گا۔عزاز میں اس کو پڑھ کر وہیں چھ لاکھ برس تک کھڑا ہو کر رویا، جناب باری سے آواز آئی کہ اے عزازیل! جو بندہ میری اطاعت نہ کرے اور حکم بجانہ لاۓ سزا اس کی کیا ہے؟ عزازیل نے کہا خداوندا ! جو شخص حکم اپنے خداوند کا نہ مانے سزا اس کی لعنت ہے فرمایاے عزازیل! تو اس کولکھ کر رکھ۔ اور عبداللہ ابن عباس نے روایت کی ہے کہ عز ازیل کے مردود ہونے سے بارہ ہزار برس پہلے یہ امر واقع ہوا تھا۔ حاصل یہ کہ عزاز میں نے کہا: لعنة الله على من ما أطاع الله. ترجمہ : لعنت اللہ کی اس پر ہے جواطاعت نہ کرے اللہ کی ۔
تب حکم ہوا کہ عز ازیل بہشت میں کئی ہزار سال خزینہ وار بہشت کا رہے، اور ایک دن اس جہاں کا اس جہاں کے ہزار سال کے برابر ہے۔ پس بہشت میں ایک منبر نور کا رکھوا کر ہزار برس تک درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کرتارہا۔
جبرئیل، میکائیل ، اسرافیل ، عزرائیل اور جمیع ملائکہ اس منبر کے نیچے بیٹھ کر وعظ سنا کرتے تھے۔
ایک روز فرشتے سب آپس میں باتیں کرتے تھے کہ اگر ہم لوگوں سے کوئی گناہ صادر ہوجاۓ تو عزازیل کو سفارشی کریں گے تا کہ خداۓ تعالی ہمارا گناہ معاف کرے۔ ایک روز نظر فرشتوں کی اس نوشتے پر لوح محفوظ کے جاپڑی، اسے دیکھ کر سب رونے اور سر پیٹنے لگے، تب وہ کہنے لگا کہ آج تم لوگوں کو کیا ہوا ہے جو روتے ہو اور سر کودے دے مارتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ لوح محفوظ پر لکھا ہے کہ ہم میں سے ایک فرشتہ معزول ومردود ہوگا۔ اس بات کو سن کر عزازیل کہنے لگا کہ میں اللہ سے مانگتا ہوں کہ اسے وہ مجھے نصیب کرے، سب کوئی اس بات کو سن کر خاموش ہورہے، اور ایک دن عزازیل نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی کہ یا الہی! جنات نے پردہ زمین میں آپس میں کشت وخون وفساد برپا کیا ہے مجھ کو ان پر سپہ سالار کرکے بھیج، تو جا کر ان سب کو مار ڈالوں۔ جناب باری تعالی نے قبول فرمایا تو عز ازیل چار ہزارفرشتوں کو اپنے ساتھ لیکر زمین پر آیا کیسی کو قتل اور کسی کو کوہ قاف میں ڈال کر روۓ زمین کومفسدوں سے پاک کیا۔