روایت کرتے ہیں محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن بن آزر بخاری حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے اور وہ اپنے باپ حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے اور وہ اپنے باپ امام زین العابد ین سے، اور انھوں نے روایت کی اپنے باپ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے سنا اپنے والد امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے، آپ نے فرمایا کہ ایک روز میں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے آکر رسول خد اصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یارسول اللہ ! فـداك أمى وآبی مجھ خبر دیجئے کہ اؤل اللہ تعالی نے کس چیز کو پیدا کیا ۔ جناب رسالت مآب نے فرمایا کہ سب کے پہلے اللہ تعالی نے میرانور پیدا کیا تھا ہزار برس تک، اُس جہاں کا ایک دن ایک برس کے برابر ہے اس جہان کے م، بمصداق اس آیت کے ترجمہ “جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ایک دن تمہارے رب کے نزدیک ہزار برس کے برابر ہے اس دنیا کے برسوں سے کہ جوتم گنتے ہو”۔ میرا وہ نورقدرت الہی سے عظمت و بزرگی الہی کا مشاہدہ کرتا اور تسبیح وطواف اور سجد والی میں مصروف رہتا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس نورمحمد مصطفے نے بارہ ہزار برس تک عالم تجر دی میں خدا کی عبادت کی، پھر حق تعالی نے اس نورکو چارتم کر کے ایک قسم سے عرش کو پیدا کیا، دوسری قسم سے قلم کو، تیسری قسم سے بہشت کو اور چوتھی قسم سے عالم ارواح اور ساری مخلوق کو پیدا کیا۔
اور ان چار میں سے چارتم نکال کے تین قسموں سے عقل، شرم اور عشق کو پیدا کیا اور تم اول سے عزیز ومکرم تر میری ذات کو پیدا کیا کہ اس کا رسول ہوں، بمصداق: ترجمه: *اگر نہ پیدا کر تا تجھ کو اے محمد! ہرگز نہ پیدا کرتا میں آسانوں و زمین اور ساری مخلوق کو”۔
اور موافق اس حدیث کے: ترجمہ “حضرت نے فرمایا میں پیدا ہوا ہوں اللہ کے نور سے اور میرے نور سے ساری مخلوق ہے”
اسکے بعد رب العالمین کاقلم عرش پر اول اس کلمہ کولکھے: لا إله إلا الله محمد رسول الله. ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالی کے اور محمد خدا کا بھیجا ہوا ہے۔
قلم نے چارسو برس لا إله إلا اللہ تک لکھا۔ اور ایک روایت یوں ہے کہ قلم نے جو لا إله إلا الله تک لکھا تو عرض کی یارب العالمین! تو بے مثل و بے مانند ہے، تیرے نام کے ساتھ یہ بزرگ نام کس کا ہے۔ پس جناب باری سے آواز آئی کہ یہ نام میرے برگزیدہ حبیب کا ہے، تو لکھ :محمدرسول اللہ۔ جب یحکم ہوا تو اللہ جل شانہ کے خطاب کی ہیبت سے قلم کے منہ پر شگاف ہوا، تب قلم نے لکھا: مـحـمـدرسول اللہ تب ہی سے قیامت تک کے لیئے قلم کا شگاف مسنون جاری ہوا۔ اس کے بعد عرش کے اوپر اٹھارہ ہزار برج پیدا کئے اور ہر برج میں اٹھارہ ہزار ستون کھڑے کئے اور ہر ستون کے اوپر ہزار کنگرے بناۓ۔ ایک کنگرے سے دوسرے کنگرے تک سات سو برس کی راہ ہے اور ہر کنگرے پر اٹھارہ ہزار قند میں ہیں، ہر ایک ایسا بڑا کہ سات طبق زمین و آسان اور جو کچھ کہ اس کے نیچ ہے اس میں اس طرح سا جاۓ کہ جیسے ایک انگشتری نیچ میدان کے ڈال رکھی ہو۔ اس کے بعد چارفر شتے پیدا کئے ایک بصورت آدمی اور دوسرا بصورت شیر اور تیسرا گدھ کی صورت میں اور چوتھا بصورت گاۓ کے ہے۔ ان کے پاؤں تحت الثری میں پہنچے اور ان کے مونڈ ھے عرش کے نیچے لگے ہوۓ ہیں، اور چلنے کے وقت جب قدم اٹھائیں تو ہر ایک قدم سات ہزار برس کی راہ میں جاپڑے۔
ان چاروں کے لئے عرش اٹھانے کا خدا کا حکم ہوا، تب ان چاروں نے زور لگایا مگر عرش کو ہرگز نہ اٹھا سکے۔ اس کے بعد جناب باری سے ارشاد ہوا کہ اے فرشتو! میں نے تم کو ہفت آسان وزمین اور جو کچھ اس کے بیچ ہے ان سب کی طاقت دی، عرش کو اٹھاؤ۔ پھر انھوں نے زور لگایا تو بھی نہ اٹھا سکے، عاجز رہے۔ پھر جناب باری سے ارشاد ہوا کہ یہ کی پڑھ کے اٹھاؤ۔
سبحان ذي الـمـلـك والـمـلـكـوت سبحان ذي العزة والعظمة والهيبة والقدرة والكمال والجلال والجمال والكبرياء والجبروت، سبحان الملك الحي الذي لا ينام ولايموت سبوح قدوس ربنا ورب الملائكة والروح۔
ترجمہ: میں بیج پڑھتا ہوں اس کی جو بادشاہ اور عالم ملکوت کا مالک ہے۔ میں نبیج پڑھتا ہوں اس کی جو صاحب عزت اور صاحب عظمت اور ذیشان اور قدرت والا اور کمال اور جلال اور بزرگی اور بڑائی کے لائق ہے۔ میں تسبیح پڑھتا ہوں اس زندہ بادشاہ کی جونہیں سوتا اور نہیں مرتا ہے، وہ بہت طاہر اور بہت پاک ہے۔ جو ہمارا اور فرشتوں اور ارواحوں کا پروردگار ہے۔
جب انھوں نے بی بیچ پڑھی تو خدا کی قدرت سے عرش کو اٹھالیا۔ اور ایک روایت ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ جب ان چارفرشتوں نے یہ بیچ پڑھی:
سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر ولاحول ولاقوة إلا بالله العلي العظيم۔
ترجمہ: میں تسبیح پڑھتا ہوں اور حمد کرتا ہوں واسطے اللہ کے، اور نہیں ہے کوئی معبو دسواۓ خدا کے، اور اللہ بہت بڑا ہے، اور نہیں توانائی اور قوت کسی کو سوائے اللہ کے ایسا اللہ کہ بڑا بزرگ ہے۔
جب یہ پڑھا تو عرش کو اٹھالیا۔ اور روایت کی گئی ہے کہ اس تسبیح سے بہشت اور فرشتوں کو پیدا کیا تا کہ چاروں طرف عرش خدا کی تسبیح پڑھیں اور طواف کریں اور مؤمن بندوں کے لئے مغفرت اور معافی چاہیں، وہ یہ ہے: قول تعالى: الذين يحملون العرش ومن حو له يسبحون بحمد ربهم ويؤمنون به و يستغفرون للذين امنوا ربنا وسعت كل شيء رحمة وعلما فاغفر للذين تابوا واتبعوا سبيلك وقهم عذاب الجحيم۔
ترجمہ:اللہ تعالی فرماتا ہے: جواٹھار ہے ہیں عرش کو اور جواس کے گرد ہیں اپنے رب کی پاکی اور خو بیوں کو بیان کرتے ہیں، اور اس پر یقین رکھتے ہیں، اور گناہ بخشواتے ہیں ایمان والوں کے۔ اے ہمارے رب! ہر چیز سمائی ہے تیری مہربانی اور میں سو معاف کر ان کو جو توبہ کریں اور چلیں تیری راہ پراور بچا ان کو آگ کے صدموں سے۔
اسکے بعد عرش کے نیچے ایک دانہ مروارید پیدا ہوا، اس سے اللہ تعالی نے لوح محفوظ بنایا۔اس کی بلندی سات سو برس کی راہ اور اس کی چوڑائی تین سو برس کی راہ ہے، اور اس کے چاروں طرف سرخ یاقوت جڑا ہوا ہے۔
اور قلم کوحکم ہوا : أكتب علمي في خلقى وما هو كائن إلى يوم القيمة۔ ترجمہ: لکھ خدا کا علم خدا کی موجودات میں اور جتنی چیز میں کہ ذرہ ذرہ موجودات میں ہو نیوالی ہیں قیامت تک۔
پہلے لوح محفوظ پر یلکھا گیا: بسـم الله الرحمن الرحیم أنـا الـلـه لا إله إلا أنا من استسلم بقضاءى و يصبر على بلاءى ويشكـر عـلى نعما ء ى كتبته وبعثته مع الصديقين يقينا ومن لم يرض بقضاءى ولم يصبر على بلاءي ولم يشكر: ماءي فليطلب ربا سوآءی وخروج من تحت سمائی۔
ترجمہ: شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے۔ میں ہوں پروردگار سب کا، نہیں ہے کوئی معبود مگر میں ہوں، جو راضی ہے میری قضا پر اور صابر ہے میری بلاؤں پر اور شاکر ہے میری نعمتوں پر جو میں نے مقدر کی ہیں پس شامل کروںگا میں ان کوصدیقوں میں، اور وہ جو راضی نہ ہو میری قضا پر اور صابر نہ ہومیری بلاؤں پر اور شاکر نہ ہو نعمتوں پر تو لازم ہے اسے کہ طلب کرے دوسرے رب کو سوا میرے، اور نکل جاۓ میرے آسان کے نیچے سے۔ اس کے لکھنے کے بعد لوح محفوظ خود بخو دجنبش میں آیا اور کہا کہ میرے مثل ہستی میں کوئی نہیں، اس واسطے کہ خدائی کا
اقامتِ دین کے لیے علماء، طلباء اور عوام الناس کو باشعور و باخبر بنانا،دینی مدارس کے بہترین تشخص کو اُجاگر کرنا اور عوام الناس کی خدمت کرنا۔