دوزخ کے سات دروازے دوزخ کے سات دروازے ہیں
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : لها سبعة أبواب، لكل باب منهم جزء مقسوم۔
ترجمہ : دوزخ کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک فرقہ بٹ رہا ہے۔
طبقہ اول جیم اور دوسرا جہنم اور تیسر اسقر چوتھا سعیر پانچواں لظٰی چھٹاہاویہ ساتواں حطمہ۔اور مروی ہے کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلام یہ آیت رسول خدا کے پاس لاۓ: قول تعالى : فخلف من بعد هم خلف أضاعوا الصلوة واتبعوا الشهوات فسوف يلقون غياه۔
ترجمہ: پھران کی جگہ آۓ نا خلف کہ انھوں نے قضا کی نماز اور پیچھے پڑے مزوں کے، سو آ گے ملے گی گمراہی۔ اور اسی وقت ایک زلزلہ زمین اور پہاڑوں پر آیا، اس کے ساتھ ایک آواز آئی کہ رنگ چہرۂ مبارک کا متغیر ہوا۔ حضرت نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ آواز کس کی ہے اور کہاں سے آئی؟ انھوں نے کہا یارسول اللہ! آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس پہلے سے ایک پتھر ستر ہزارمن کا کنارے پر دوزخ کے پڑا ہوا تھا، وہ پھر پندرہ ہزار برس سے نیچے کی طرف چلا جا تا تھا، ابھی قعر حطمہ میں جا پہنچا، اسی کی آواز تھی۔ حضرت نے پو چھا وہ جگہ کس کی ہے، وہ بولے منافقوں کی جیسا کہ حق تعالی نے
فرمایا ہے:إن المنفقين في الدرك الأسفل من النار۔
ترجمہ: منافق ہیں سب سے نیچے درجے میں آگ کے۔
اور چھٹے درجے میں دوزخ کے مشرکین رہیں گے اور پانچو میں درجہ میں دوزخ کے بت پرست اور چوتھے میں شراب فروش اور تیسرے درجہ میں ترسا اور دوسرے درجہ میں جہود اور اول درجہ میں عاصیان امت تمہاری رہیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: إن الذين امنوا والذين هادوا والصابئين والنصارى والمجوس والذين أشركوا ۔
ترجمہ: جولوگ کہ مسلمان ہیں گنہگار اور جو یہود ہیں اور صابی جو کہ بت پرستوں میں سے ایک فرقہ ہے اور نصاری اور مجوس اور جوشرک کرتے ہیں، یہ چھ روہ دوزخ میں رہیں گے۔ اور دوزخ کے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک ستر برس کی راہ ہے۔ اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ قدرت الہی سے جب ہزار برس آتش دوزخ دہکائی گئی تو سرخ ہوئی، پھر ہزار برس دھونکی گئی سفید ہوئی، پھر ہزار برس سلگائی گئی تو سیاہ ہوئی، قیامت تک ویسی ہی سیاہ رہے گی جیسے اندھیری رات ہے۔ اور ایک پتھر کا ٹکڑا کہ جس کی چوڑائی پانچ سو برس کی راہ ہے، دوزخ کے اوپر رکھا گیا اور وہ قیامت تک رہے گا۔ اور دوزخ کے نیچے ایک پتھر ہے، اس کے نیچے ایک فرشتہ مچھر کی پشت پر کھڑا ہے ، اور اس کے نیچے ایک مچھلی ایسی بڑی ہے کہ اس کی دم ساق عرش سے لگی ہوئی ہے، اور گاۓ فردوس اعلی کی ستر ہزارسینگ اس کے ہیں، زمین میں سخت گڑے ہوۓ، اس مچھلی کی پیٹھ پر کھڑی ہے، اور گاۓ نے ارادہ کیا کہ جنبش کرے، خداۓ تعالی نے ایک مچھر کو پیدا کر کے اس کے سامنے رکھا اور مچھر نے اس کی ناک میں کاٹا اور اس گاۓ نے درد سے لغزش کی، اس کے بعد اپنی جگہ ٹہری، اب تک وہ مچھر اس کی ناک میں ہے، قیامت تک وہ گاۓ اس کے خوف کے مارے نہیں ہل سکتی۔اگر وہ لغزش کرے تو سارا عالم زیروزبر ہوجاۓ۔
اور شرح اس کی عبداللہ بن سلام کے قصے میں لکھی ہوئی ہے ۔ اور بعد اس کے اللہ تعالی نے ریگ کو پیدا کرکے ہوا کوحکم کیا تو ایک حصہ اس کا زمین پر اور ایک حصے کوز یر زمین لے گئی، اس کے بعد بغیر دھویں کی آگ پیدا کر کے اس سے قوم بنی جان ( یعنی جنات) کو پیدا کیا جیسا کہ جناب الہی نے فرمایا ہے: و الجان خلقناه من قبل من نار السموم۔
ترجمہ: اور جان ( جنات) کو بنایا ہم نے پہلے سے آگ کی کو سے۔ اور جنوں سے جہاں بھر گیا اس کے بعدان پر اللہ تعالی نے ایک پیغمبر بھیجا کہ نام ان کا یوسف تھا کہ ان کو شریعت بتلادے اور اللہ کی طرف ہدایت کرے۔انھوں نے ان کونہ مانا اور مارڈالا اور زمین پر ظلم وفساد کرنے لگے ، جب حق تعالیٰ نے عزرائیل علیہ السلام کو فرشتوں کے ساتھ بھیجا، انہوں نے سب کو مار کر دنیا کو خالی کیا۔ واللہ اعلم۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
میرے پیارے دوست اگر آپ لوگوں نے اس پوٹ میں کوچھ بھی غلطی محسوس کیا تو تورنت ہم کو اطلاع دی دے
شکریہ۔